برطانیہ میں پاکستانی نژاد ٹک ٹاکر ماں بیٹی کو قید کی سزا

0

لندن: برطانوی شہر لیسٹرم میں مبینہ طور پروالدہ کو بلیک میل کرنے والے دو نوجوانوں کے قتل کے جرم میں ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کی والدہ عنصرین بخاری سمیت 4 افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

برطانیہ میں 24 سالہ پاکستانی نژاد ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کی 46 سالہ والدہ انصرین بخاری کی کہانی فلمی انداز کی ہے، کس طرح ٹک ٹاک سے شروع ہونے والے کھیل نے ان کے پاکستانی نژاد فالور اور اس کے دوست کی جان لے لی، بظاہر یہ کار حادثہ تھا، لیکن جس طرح فلموں میں ہوتا ہے کہ مرنے والا اپنی آخری سانسوں کے دوران مارنے والا کا نام بتا جاتا ہے، ایسا ہی کچھ ان ماں بیٹی کے ساتھ بھی ہوا، اور اب ماں بیٹی ان کے ساتھ خونی کھیل میں شامل ان کے 5 فالورز کو برطانوی عدالت نے اتنی لمبی سزائیں سنادی ہیں کہ شائد ان میں سے کچھ تو اب زندگی میں جیل سے باہر نہ آسکیں۔

مہک بخاری جو فیشن سے متعلق ویڈیو ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر اپ لوڈ کرتی تھی، اس کے ٹک ٹاک پر ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد فالورز تھے، اس نے ماں کو بظاہر بلیک میلنگ سے بچانے کے لئے اپنے فالورز کے ساتھ مل کر ایک پاکستانی نوجوان ثاقب حسین کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، جو ٹک ٹاک پر انہیں فالو کرتا ہوا، ان کی ماں کے قریب آگیا، مہک بخاری بھی سب کچھ جانتے ہوئے خاموش رہی، اس نے ماں کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی، جو اس کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیوز میں اکثر نظر آتی تھی، پھر ایک وقت پر جا کر معاملہ بگڑا، تو21 سالہ ثاقب حسین نے مہک بخاری کی ماں یعنی نسرین بخاری سے پیسے طلب کرنے شروع کردیے، جو اس کے بقول وہ ان پر خرچ کرچکا تھا، بات بگڑنا شروع ہوئی، اور جب ٹک ٹاکر ماں بیٹی نے پیسے دینے سے انکار کیا، تو نوجوان ثاقب حسین نے انہیں بلیک میل کرنا شروع کیا۔

نسرین بخاری سے کہا کہ وہ اس کے شوہر اور بیٹے کو سب کچھ بتادے گا، یہ معاملہ گزشتہ برس جنوری میں بڑھتا چلاگیا، دونوں ماں بیٹی جو بہت ہوشیار سمجھی جاتی تھیں، انہوں نے فلمی انداز میں ایک پلان بنایا کہ ثاقب کو راستے سے ہی ہٹادیا جائے، تاکہ وہ ان کے لئے مستقبل میں بھی کوئی مسائل پیدا نہ کرسکے، چناچہ انہوں نے اپنے فالورز میں سے 6 وفاداروں کو جو ان سے رابطے میں تھے، استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، گزشتہ سال 11 فروری کو انہوں نے پلان کے مطابق ثاقب حسین کو کہا کہ وہ اسے تین ہزار پاونڈ دینے کے لئے تیار ہیں، وہ پارکنگ لاٹ کے قریب آجائے۔

ثاقب حسین اپنے دوست محمد ہاشم اعجاز الدین کے ساتھ پارکنگ کے قریب پہنچا ، تو وہاں یہ دونوں ماں بیٹی اپنے 6 ساتھیوں کے ساتھ ان کے ’’استقبال‘‘ کیلئے موجود تھیں، ثاقب حسین سمجھ گیا، کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے، سو اس نے گاڑی بھگانے کی کوشش کی، لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ مہک بخاری اور اس کی والدہ انسرین بخاری یہی تو چاہتی تھیں ، کام ان کے پلان کے مطابق ہورہا تھا، دونوں ماں بیٹی نے بھی گاڑیاں اس کے تعاقب میں لگادیں، لیسٹر میں اے 46 شاہراہ پر ثاقب حسین موت سے بچنے کے لئے اپنے دوست کے ساتھ گاڑی آگے آگے بھگا رہا تھا، وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ اب مہک اور اس کی ماں اس تک نہیں پہنچ سکیں گی، کیوں کہ وہ پارکنگ سے نکل آیا ہے، لیکن دونوں ماں بیٹی اپنے دیگر 6 ساتھیوں کے ساتھ اس کی گاڑی کے قریب پہنچ گئیں۔

پلان کے مطابق اس کی گاڑی سے اپنی گاڑیاں قریب کرکے اسے خوفزدہ کرنے لگیں، ثاقب کی گاڑی کو بار بار سائیڈ کرائی گئی، اور بالاخر ماں بیٹی کا منصوبہ کامیاب ہوگیا، بار بار سائیڈ کرانے سے گھبرائے ہوئے ثاقب کی گاڑی حفاظتی جنگلہ توڑتے ہوئے شاہراہ سے باہر نکل گئی، درخت سے ٹکرائی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی، جس میں ثاقب اور اس کا دوست اعجاز دونوں زندہ جل گئے، لاشیں اس قدر سوختہ ہوگئیں، ان کی شناخت بھی دانتوں سے کی گئی، اس کے بعد مہک اپنے ساتھیوں کے ساتھ دونوں گاڑیوں میں اطمینان کے ساتھ آگے نکل گئی، جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو، انہیں تسلی تھی کہ معاملہ ان کے پلان کے مطابق حادثہ ہی لگے گا، اور ان پر کوئی شک نہیں کرےگا، تاہم اس کی قسمت خراب تھی، کیوں ثاقب حسین حادثے سے عین قبل برطانوی پولیس کو ہیلپ لائن پر کال کرکے یہ بتاچکا تھا کہ کس طرح مہک بخاری اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا تعاقب کررہی ہے۔

پولیس کو کال کے دوران ہی اس کی گاڑی حفاظتی جنگلہ توڑتی ہوئی درخت سے ٹکرائی اور اس سے ہونے والے دھماکے کی بھی پولیس کال ریکارڈ میں ریکارڈ نگ ہوگئی ، بعد میں جب عدالت میں کیس چلا ، تو جج کو بھی ثاقب کی یہ آخری کال سنائی گئی، اور اس کیس میں یہی سب سے ٹھوس گواہی تھی، جو مرنے والا خود دے کر گیا تھا، اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں پر ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لوگ مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔

دوسری جانب جب پولیس نے مہک بخاری اور اس کی ماں سے تفتیش شروع کی، تو دونوں نے واقعہ سے لاتعلقی ظاہر کی، انہیں یقین تھا کہ ان کے خلاف پولیس کو ثبوت نہیں مل سکیں گے، یہی وجہ ہے بالخصوص مہک بخاری عدالت میں بھی ابتدا میں ہنستی رہیں، اور جیوری کے سامنے بھی گیم کھیلتی رہتیں، جیسے وہ معصوم ہوں، لیکن جب جیوری نے انہیں مجرم قرار دیا تو ماں بیٹی رو پڑیں، اب مہک بخاری کو اس کی والدہ اور 5 ساتھیوں سمیت جیوری نے طویل قید کی سزا سنادی گئی ہے، سزا سننے کے بعد مہک بخاری نے عدالت میں موجود اپنے والد کا دور سے بوسہ لیا، اور کہا مجھے کال کرتے رہنا، جس کے بعد برطانوی اہلکار اسے عدالت سے لے کر جیل روانہ ہوگئے۔

جیوری نے مہک بخاری کو ثاقب حسین اور اس کے دوست کے قتل کے جرم میں 31 برس 8 ماہ، جبکہ اس کی ماں انسرین کو 26 برس 9 ماہ قید کی سزا سنائی ہے، جج نے اپنے فیصلے میں سوشل میڈیا کے منفی پہلووں کا بھی تذکرہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ کس طرح مہک نے اپنی والدہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قانون کی راہ لینے کے بجائے اپنے فالورز کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، اور دو جانیں لےلیں، عدالت نے مہک بخاری اور اس کی والدہ کی گاڑیاں چلانے والے ان کے دو فالورز 29 سالہ ریحان کارواں کو 26 برس 10 ماہ جبکہ سالہ 23 رئیس جمال کو36 برس قید کی سزا سنائی ہے، جنہوں نے ثاقب حسین کی گاڑی کو اس دانستہ حادثے کی طرف دھکیلا تھا۔

اسی طرح برمنگھم سے تعلق رکھنے والے ان کی خاتون ساتھی 23 سالہ نتاشا اختر کو 11 برس 8 ماہ ، لیسٹر سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ عامر جمال کو 14 برس، اور لیسٹر کے ہی 23 سالہ صناف غلام مصطفیٰ کو 14 سال قید کی سزا سنائی ہے، سزا کے بعد ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ وہ اس کے خلاف اپیل میں جائیں گے، اس کیس میں صرف ایک ملزم محمد پٹیل کو بری کیا گیا ہے،

Leave A Reply

Your email address will not be published.