اٹلی میں تارکین کی کشتیوں کی لائن لگ گئی، تین دن میں ہزاروں تارکین پہنچ گئے

0

لمپاڈسیا: کشتیوں کی نہ ختم ہونے والی لائن لگ گئی، جس  سے نہ صرف اٹلی بلکہ یورپی یونین میں بھی پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے، اس دوران 200 سے زائد کشتیاں تیونس کے شہر سفاکس سے 90 میل کا فاصلہ طے کرکے لمپاڈسیا آئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق اٹلی کے  جزیرہ لمپاڈسیا میں تین روز کے دوران 10 ہزار سے زائد افریقی تارکین کشتیوں کے ذریعہ پہنچے ہیں، جبکہ چھ ہزار سے زائد تارکین تو صرف منگل سے بدھ کے درمیان 24 گھنٹوں میں پہنچے، جس سے لمپاڈسیا جس کی اپنی کل آبادی 6 ہزار ہے، وہاں صورت حال کنٹرول سے باہر ہوگئی، جزیرہ پر خوراک اور پانی کے بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ جزیرہ پر پانی بھی اٹلی سے جہازوں میں لایا جاتا ہے، اس دوران اطالوی ریڈ کراس کی جانب سے کھانا تقسیم کرنے کے دوران معمولی ہنگامہ آرائی بھی ہوئی، کیوں کہ بھوک کے مارے تارکین کا برا حال تھا، اور انہیں یہ خدشہ تھا کہ تارکین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کھانا کم پڑ جائے گا، اور وہ بھوکے نہ رہ جائیں۔

تارکین کی بڑی تعداد جن میں سے اکثریت کے پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے، کھانے کی تلاش میں لمپاڈسیا کے مرکز میں اور مقامی آبادی کی طرف بھی جا پہنچی، جہاں جزیرے کے رہائشی اطالوی عوام اور سیاحوں کی طرف سے زبردست خیرسگالی دیکھنے میں آئی، اور لوگوں نے کھانا مانگنے والے تارکین کو گھروں سے کھانا پکا کردیا، ان تارکین کی آمد کے بعد اس سال کشتیوں کے ذریعہ اٹلی آنے والے تارکین کی تعداد سوا لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔

حکام کے مطابق ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد تارکین کشتیوں کے ذریعہ پہنچ چکے ہیں، جن کی اکثریت تیونس سے آئی ہے، حالاں کہ اٹلی اور یورپی یونین نے تیونس کو تارکین روکنے کے لئے بڑی امداد بھی دی ہے، تاہم اس کے باوجود تیونس ان تارکین کو روکنے میں بظاہر دلچسپی نہیں لے رہا،  ورنہ دو دنوں میں دو سو کشتیوں کی آمد ممکن نہ ہوتی، یورپی سرحدی پولیس  فرنٹکس نے اس دوران خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم میں تارکین کی آمد کا دباو آنے والے مہینوں میں جاری رہ سکتا ہے، کیوں کہ انسانی اسمگلرز نے لیبیا اور تیونس سے تارکین کو لانے کے لئے ریٹ کم کردیے ہیں، اور ان میں آپسی کا مقابلہ بڑھتا جارہا ہے۔

اس سال اب تک جن سات ممالک سے زیادہ تارکین آئے ہیں، ان میں گینیا سے تقریباً 15 ہزار، تیونس سے ساڑھے 11 ہزار، مصر ساڑھے 8 ہزار، بنگلہ دیش ساڑھے 7 ہزار، برکینا فاسو پونے 7 ہزار جبکہ ساڑھے 6 ہزار کے قریب پاکستانی بھی اٹلی پہنچ چکے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں تارکین کی ایک ساتھ آمد سے نہ صرف اٹلی بلکہ یورپی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، فرانس نے فوری طور پر اٹلی کی سرحد پرسخت کنٹرول نافذ کردیا ہے، مزید نفری سرحد پر بھیج دی گئی ہے، تاکہ اٹلی پہنچنے والے تارکین فرانس کا رخ نہ کرسکیں، جبکہ جرمنی نے اٹلی کے ساتھ تارکین منتقلی کے معاہدے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔

اطالوی میڈیا میں تارکین کی آمد کے حوالے سے مسلسل بریکنگ نیوز چل رہی ہیں کہ مزید اتنی کشتیاں پہنچ گئیں، اسی طرح جزیرے کے حالات  بتائے جارہے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں تارکین کے پہنچنے سے کیا مسائل کھڑے ہوگئے ہیں، اس معاملے پر ویسے تو تقریباً تمام اطالوی رہنماوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اپوزیشن نے اسے وزیراعظم میلونی کی ناکامی قرار دیا ہے کہ وہ تیونس کے دورہ اور امداد کے اعلان کرتی رہی ہیں، جبکہ تارکین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اسی طرح یورپی یونین پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ وہ اٹلی سے غیرقانونی تارکین کے معاملے پر تعاون نہیں کررہا۔

تاہم حکومتی اتحادی لیگا پارٹی کے سربراہ نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی کا ردعمل زیادہ سخت آیا ہے، انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ تارکین کی آمد کو اٹلی کے خلاف جنگ سے تعبیر کیا ہے، اور کہا ہے کہ انہیں یقین ہے اس کے پیچھے کسی  کا ہاتھ ہے، جو تارکین کو اٹلی کی طرف بھیج رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اس معاملے پر کچھ نہیں کررہی، ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، اٹلی کی سرحدوں کے دفاع کے لئے خود سخت فیصلے کرنے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ اٹلی جس طرح غیرقانونی تارکین کے حملے کا شکار ہے، ایسا اسپین، فرانس، مالٹا، یونان سمیت کسی ملک میں نہیں ہورہا۔

اس حوالے سے اطالوی حکومت نے پیر کو کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی بلالیا ہے، جس میں غیر قانونی تارکین کے حوالے سے نئی سخت ڈگری جاری کئے جانے کا امکان  ہے۔ جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے اٹلی آنے والے 12 ہزار 400 تارکین اس وقت ان کے ملک میں ہیں، اور ڈبلن معاہدہ کے تحت اٹلی کو انہیں واپس لینا چاہیے، لیکن اٹلی تعاون نہیں کررہا، اس لئے وہ بھی ساڑھے 3 ہزار تارکین کو اٹلی سے رضاکارانہ طور پر لینے کا عمل روک رہے ہیں، حالاں کہ جرمنی نے پچھلے سال ایک ہزار تارکین کو اٹلی سے منتقل کیا تھا۔

یورپی یونین کی صدر ارسلا وین ڈئیر لیان نے اس حوالے سے اطالوی وزیراعظم سے رابطہ کیا ہے، اور تعاون کا یقین دلایا ہے، جبکہ یورپی کمیشن  کے ترجمان کا کہنا ہے کہ  لمپاڈسیا کی صورت حال ہمیں درپیش چیلنج کی نشان دہی کرتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.