لاہور ائیر پورٹ پر اٹلی کے صحافی کا منی اسٹینگ آپریشن، امیگریشن عملہ بے نقاب

0

بریشیا: اٹلی میں مقیم پاکستانی صحافی اور 92 نیوز چینل کے نمائندہ تنویر ارشاد نے لاہور ائرپورٹ پر تعینات امیگریشن عملہ کی اوورسیز بالخصوص یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے لوٹ مار اور بدتمیزی کو اپنے منی اسٹینگ آپریشن میں بے نقاب کردیا، کیمرے سے بچنے کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کو الگ کمرے میں لے جاکر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

ڈرا دھمکا کر پیسے دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اٹلی میں مقیم پاکستانی صحافی تنویر ارشاد کی ہفتہ کی شب ترکش ائر لائن کی پرواز سے استنبول کے راستے اٹلی واپسی تھی، صحافی نے عام اوورسیز پاکستانیوں سے امیگریشن عملے کے سلوک سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے عام مسافروں کی طرح ائرپورٹ کا پراسیس مکمل کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ جان سکیں کہ آیا حکومت کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ بہترین رویہ کی جو تلقین کی جاتی ہے، اس کا اثر امیگریشن عملہ پر بھی کچھ ہوا ہے یا نہیں، اٹلی میں مقیم صحافی تنویر ارشاد واپسی کے لئے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب لاہور ائرپورٹ پہنچے، انہوں نے ترکش ائر لائن کی پرواز TK-0715 کے ذریعہ براستہ استنبول بلوونیا آنا تھا، جس کا لاہور سے روانگی کا وقت اتوار کی صبح 6 بج کر 50 منٹ تھا، وہ تین بجے کے قریب امیگریشن کے لئے ایف آئی اے کے کاؤنٹر پر پہنچے، تو دستاویز دیکھنے کے بعد کاؤنٹر پر موجود ایف آئی اے اہلکار نے انہیں سائیڈ پر آنے کو کہا۔

اس موقع تنویر ارشاد نے تعارف کرانے کے بجائے اوورسیز پاکستانیوں سے امیگریشن عملے کے سلوک کو جاننے کا فیصلہ کیا، اور سائیڈ پر گئے، جہاں امیگریشن کے شفٹ انچارج تین پھول والے افسر جن کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی، انہوں نے کاغذات لئے، اور انہیں ساتھ واقع کمرے میں چلنے کو کہا، جس کا مقصد بظاہر ائرپورٹ ہال میں لگے کیمروں سے بچ کر ڈیل کی کوشش تھی۔

کمرے میں پہلے سے دو افراد سول کپڑوں میں کمپیوٹر پر بیٹھے تھے، مذکورہ افسر نے کاغذات ان کے حوالے کئے، اور پھر تینوں نے مل کر دباو ڈالنے کی کوشش شروع کردی، پہلا سوال کیا کہ آپ اٹلی سے آتے وقت کس ائرپورٹ پر اترے تھے، جس پر صحافی نے جواب دیا کہ یہ تو آپ کے سسٹم میں آرہا ہوگا، ویسے میں اسلام آباد اترا تھا،جس پر ایف آئی اے افسر نے کہا کہ جاتے ہوئے لاہور سے کیوں جارہےہیں، تنویر ارشاد نے جوا ب دیا کہ لاہور بھی پاکستان میں ہے، اور مجھے پاکستان کے کسی بھی ہوائی اڈے سے سفر کا حق ہے، اس پر ایف آئی اے افسر اور ساتھ موجود دونوں سول لباس والے افراد نے کہا کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں ہوتا ، اس لئے پوچھرہے ہیں، واضح رہے کہ امیگریشن کا پائیسز نظام تمام ہوائی اڈوں سے منسلک ہے، اور پاسپورٹ نمبر کا اندراج کرتے ہی سارا سفری ریکارڈ ایف آئی اے کے سامنے آجاتا ہے، لیکن دباؤ میں لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا گیا کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں آتا، پھر اطالوی دستاویز دیکھتے ہوئے پوچھا کہ یہ کستورا کیا ہوتا ہے؟۔

اس پر صحافی نے جواب دیا کہ کستورا اٹلی میں پولیس اسٹیشن کو کہتے ہیں، اس پر انہوں نے مزید پوچھا کہ اطالوی پولیس نے آپ کو کیوں کاغذ دئیے ہیں، جس پر صحافی نے کہا کہ اٹلی میں غیرملکیوں کی ساری دستاویز کستورا ہی دیتا ہے، پھر ایف آئی اے افسر نے پوچھا کہ وہ کیوں دیتا ہے؟ تو صحافی نے جو اب دیا کہ یہ اطالوی حکومت کا بنایا نظام ہے۔

اس دوران بین السطور میں سول لباس میں ملبوس دونوں افراد تنویر ارشاد کو یہ پیغام دیتے رہے کہ کچھ دے دلا کر آرام سے چلے جائیں، تاہم جب بات نہ بنی تو انہوں نے اطالوی شناختی دستاویز کے علاوہ دیگر دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کردیا، جس پر صحافی نے انہیں اطالوی ڈرائیونگ لائسنس دکھایا، مگر اس کے باوجود ایف آئی اے افسر اور اس کے ساتھی شائید مزید دباؤ ڈال کر کچھ نہ کچھ رقم حاصل کرنے کے موڈ میں تھے، جس پر تنگ آکر صحافی نے اپنا تعارف کرایا، تو فوراً تینوں سر سر کہنے لگے، اور کہا کہ آپ جاسکتے ہیں۔

حکومت سے نوٹس کا مطالبہ

صحافی تنویر ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے یورپی ممالک کی امیگریشن رکھنے والے مزید کئی اوورسیز پاکستانیوں کو بھی یہ ایف آئی اے اہلکار اس کمرے میں لے جارہے تھے، تاکہ انہیں اکیلا کرکے دباؤ ڈال کر پیسے بٹورے جاسکیں، انہیں کئی اوورسیز پاکستانی پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ لاہور ائرپورٹ کے امیگریشن عملہ نے انہیں دباؤ میں لے کر ان سے تین سو سے پانچ سو ڈالر تک وصولی کی۔ کیوں کہ ان پاکستانیوں کی اکثریت کم پڑھی لکھی ہوتی ہے، لہذا ایف آئی اے کا کرپٹ عملہ انہیں دباو میں لے لیتا ہے، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ آخر ایف آئی اے امیگریشن کو ائرپورٹس پر الگ کمرہ کیوں دیا گیا ہے؟۔ یہ تو انہیں سرا سر کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہوکر لین دین کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے، ایف آئی اے کے تمام کاوئنڑ ہال میں اور کیمرے کے سامنے ہونے چاہئیں، وہ اس حوالے سے اوورسیز پاکستانیوں سے مل کر مہم چلانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، امیگریشن عملے کی زیادتیوں کا شکار اوورسیز پاکستانی انہیں اپنی رواداد بھیج سکتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.