لندن: برطانیہ نے نوازشریف کو پناہ دینے پر اٹھائے گئے سوال کا جواب دے دیا ہے، جس میں بالواسطہ طور پر پاکستان کو نوازشریف کے معاملے پر ناں ہی کردی ہے، برطانوی رکن پارلیمنٹ نے حلقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد کے خط پر حکومت سے پوچھا تھا کہ نوازشریف کو واپس پاکستان بھیجنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایسٹ ہیم سے لیبر پارٹی کے رکن اسٹیفن ٹمز نے اپنے حلقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد خالد لودھی کے خط پر حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا نوازشریف کو واپس پاکستان بھیجنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں، ان کے اس خط پر جنوبی ایشیا امور کے وزیر مملکت لارڈ طارق احمد نے جواب دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کسی انفرادی کیس (نوازشریف) پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتی ، لیکن ہم یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ کسی کو شیلٹر دینا ہماری پالیسی نہیں ہے، پاکستان اور برطانیہ کے درمیان حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے، مگر اس کے باوجود اگر حوالگی کی کوئی درخواست باقاعدہ طریقے سے موصول ہوتی ہے، تو برطانوی حکومت اس پر اپنے قوانین کے تحت غور کرے گی۔
ایف سی او کے پاکستانی سیکشن نے جواب میں کہا ہے کہ نوازشریف برطانیہ میں قیام پذیر ہیں، برطانوی قوانین اس حوالے سے واضح ہیں کہ امیگریشن کے معاملات میں حکومت کیا کچھ کرسکتی ہے، جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے نوازشریف کے جو ناقابل ضمانت وارنٹ حاصل کئے ہیں، ان کی برطانوی سرزمین پر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، برطانوی پولیس صرف اپنے ملک کی عدالتوں کے وارنٹ پر عمل کرتی ہے، دوسری طرف اپنے حلقے کے رکن کو خط لکھنے والے خالد لودھی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیرداخلہ پریتی پٹیل کو بھی خط لکھا تھا، جس میں بتایا تھا کہ نوازشریف سزا یافتہ اور پاکستانی عدالتوں کو مطلوب ہیں، وہ علاج کے لئے آئے تھے، اور یہ کہ انہیں واپس بھیجا جانا چاہئے۔