برطانیہ میں کرونا کی ایک اور خطرناک قسم سامنے آگئی، حکام الرٹ

0

لندن: کرونا کیسز کم ہونے پر ابھی برطانوی حکام اطمینان کی کچھ سانس لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے لئے ایک اور مصیبت نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، دوسری طرف برطانیہ ویکسین میں پورے یورپ سے بازی لے گیا ہے، جو برطانیہ میں رہنے والوں کے لئے اچھی خبر بھی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا کی نئی قسم سے کئی ہفتوں سے نبرد آزما برطانوی طبی حکام نے گزشتہ کچھ دنوں سے کیسز میں کمی پر ابھی سکھ کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ ملک میں کرونا کی ایک اور قسم سامنے آگئی ہے، برطانوی طبی حکام نے کرونا وائرس کی جس نئی قسم کو شناخت کیا ہے، وہ اس سے قبل برازیلین شہر ماناؤس میں تشخیص کی گئی تھی۔ کرونا کی برازیلین قسم بھی بڑی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وبا میں مبتلا ہوچکے افراد کو بھی یہ دوبارہ لپیٹ میں لے لیتی ہے، برطانوی حکام کے مطابق  ابتدائی طور پر اس نئے وائرس کے 6 مریض سامنے آئے ہیں، تاہم انہیں خدشہ ہے کہ مزید متاثرین بھی ہوسکتے ہیں۔

ایسے میں انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو وبا کی شکایت ہو تو وہ فوری ٹیسٹ کے لئے رابطہ کرے، جرمن خبررساں ادارے کے مطابق سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی برازیلین قسم زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور ممکنہ طور پر ان افراد کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے، جو پہلے وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں دو کروڑ لوگوں کو ویکسین کی پہلی خوراک لگادی گئی ہے، اور جولائی کے اختتام تک تمام بالغ آبادی کو کم از کم ویکسین کی ایک خوراک ضرور لگادی جائے گی، یوں یورپ کے اندر برطانیہ سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین دینے والا ملک بن گیا ہے، واضح رہے کہ ویکسین کی ہر فرد کو دو خوراکیں لگنی ہوتی ہیں، تاہم برطانوی حکومت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پہلی خوراک لگانے کے لئے فی الحال ایک ہی خوراک فراہم کررہی ہے، جو انجکشن کے ذریعہ دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ واپسی پر ہوٹلوں میں لازمی قرنطینہ نافذ، کون سے ملک متاثر ہونگے؟

خیال رہے کہ یورپ میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر برطانیہ ہوا ہے، جہاں اب تک 41 لاکھ 90 ہزار سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں، جبکہ 1 لاکھ 23 ہزار سے مہلک وائرس سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.