30 برسوں سے ایک امتحان میں فیل ہونے والی برطانوی خاتون کی کہانی

0

لندن: پی ٹی وی کے ایک پرانے ڈرامہ میں ایک موٹا لڑکا اداکار تھا، جسے تھیلا کے نام سے متعارف کرایا گیا تھا، اس کے گاؤں میں جب ایک شہر کی پڑھی لکھی خاتون جاتی ہے، اور اس سے تعلیم پوچھتی ہے، تو وہ خود کو پانچویں کا طالبعلم بتاتا ہے۔

خاتون حیرت سے کہتی اتنے بڑے ہوگئے ہو، اور اب تک پانچویں میں ہو، جس پر تھیلا جواب دیتا ہے، اس میں میرا قصور تھوڑی ہے، میں تو ہر سال امتحان دیتا ہوں، ماسٹر جی پاس ہی نہیں کرتے، کچھ ایسا ہی معاملہ ایک برطانوی خاتون کا سامنے آیا ہے، جو گزشتہ 30 برسوں سے ایک امتحان میں فیل ہورہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے علاقے بیڈ فورڈ شائر سے تعلق رکھنے والی 47 سالہ خاتون ایزابیل اسٹیڈمین نے پہلا ڈرائیونگ ٹیسٹ 17 برس کی عمر میں دیا تھا، اور گزشتہ 30 برسوں سے وہ مسلسل ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے امتحان دیتی آرہی ہیں، اب تک انہوں نے ایک ہزار سے زائد بار یہ ٹیسٹ پاس کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہر بار وہ فیل ہوجاتی ہیں، اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتیں، اور پھر نئے سرے سے ٹیسٹ دینے کے لئے تیاری شروع کردیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ حکومت کا انوکھا فیصلہ، سارے پرچوں میں فیل طلباء کو بھی پروموٹ کرنے کا فیصلہ

ایک سپر مارکیٹ میں کام کرنے والی ایزابیل کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر انہیں نہ جانے کیا ہوجاتا ہے، میں 30 برسوں سے سیکھ رہی ہوں، لیکن جیسے ہی کار میں بیٹھتی ہوں۔

ایسا لگتا ہےکہ میں پہلی بار اس میں بیٹھی ہوں، میں خوفزدہ ہوجاتی ہوں۔ چند سیکنڈز کے لئے ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغ ماوف ہوجاتا ہے، برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بالخصوص جب چوک آتا ہے، تو وہ میرے لئے ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے، آخری ٹیسٹ کے لئے انہوں نے ایک ہفتہ کا کورس کیا، اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ اب تو وہ ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر ہی لیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ماسک بیچ کر مہنگی فراری کاریں خریدنے والے مشکل میں پھنس گئے

لیکن یہ آخری ٹیسٹ زیادہ ڈراؤنا ثابت ہوا۔ جیسے ہی چوک آیا، مجھے لگا دماغ میرا ساتھ نہیں دے رہا، جب گاڑی رکی، تو انسٹرکٹر مجھے بتارہا تھا کہ اس نے کس طرح مداخلت کرکے گاڑی کو سائیڈ پر روکا، اس کے بعد یقین کریں، میں گھر جاکر کئی گھنٹہ تک سوتی رہی، کیوں کہ اس تجربہ نے مجھے ذہنی طور پر بہت متاثر کیا تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.