دولت بیگ سیکٹر میں بھی چینی پیش قدمی، دہلی میں کھلبلی مچ گئی

0

داخ:چین نے گلوان وادی اور پنگانگ جھیل کے بعد لداخ میں اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ترین علاقے دولت بیگ کی طرف بھی پیش قدمی کی ہے اور اپنی چوکیوں کو کافی آگے لے آیا ہے، جس سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی  میں کھلبلی مچی گئی ہے۔

وادی گلوان میں الجھی بھارتی فوج کو بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب اس نےلداخ میں ایک اور اہم مقام اور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ترین علاقے دولت بیگ میں چینی فوج کی پیش قدمی دیکھی ہے،چینی فوج نے وادی گلوان کی طرح یہاں بھی خاموشی سے بھارتی زیر کنٹرول علاقے میں خیمے لگا دئیے ہیں ۔

انٹیلی جنس کی ناکامی سے یہاں بھی بھارتی فوج چین کی پیش قدمی سے لاعلم رہی اور اپنے اہم فوجی بیس دولت بیگ سے ملحقہ علاقے میں چینی پیش قدمی کا علم اسے اس وقت ہوا جب بھارت کا گشتی دستہ علاقہ میں گیا تو وہاں پہلے سے چینی فوجی موجود تھے اور انہوں نے بھارتی فوجیوں کو گشت سے روکتے ہوئے واپس جانے کی ہدایت کی۔

ذرائع کے مطابق بھارتی فوجی جو گلوان میں اپنے ساتھیوں کے انجام کے بعد خوفزدہ تھے، بغیر الجھے خاموشی سے واپس چلے گئے اور اپنی کمان کو اطلاع دی کہ چینی فوجی علاقے میں آگئے ہیں اور انہیں گشت سے روک دیا گیا ہے۔

گلوان میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد چین بھارتی فوج پر دھاک بٹھا چکا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ دولت بیگ میں بھارتی فوج نے کوئی مزاحمت نہیں کی بلکہ دہلی میں فوجی ہیڈ کوارٹر کو ہنگامی ایس او ایس کے ذریعہ صورتحال سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دولت بیگ بھارت کیلئے بہت اہم علاقہ ہے اور یہاں سے نہ صرف بھارتی فوج کی سپلائی لائن گزرتی ہے بلکہ اس کا بیس بھی یہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق بھارتی فوج میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور چینی فوج سے رابطے کئے جارہے ہیں کہ وہ اپنی پوزیشنوں پر واپس جائے لیکن چین نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جس وقت بھارتی فوج وادی گلوان میں چین کے ساتھ الجھی ہوئی تھی اس دوران گزشتہ تین ہفتوں میں چینی فوج نے خاموشی سے دولت بیگ میں پیش قدمی کرلی ہے۔

ایک بھارتی دفاعی ذریعہ کے مطابق گلوان اور پنگانگ کے بعد دولت بیگ میں پیش قدمی کے ذریعہ چین نے پیغام دیا ہے کہ وہ طاقت کے اظہار میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں رکھتا۔

چین نے علاقے میں 15 ہزار سے زائد فوج تعینات کردی ہے اور وہ بھارت پر دباؤ کیلئے جنگی طیارے بھی فارورڈ بیسز پر لے آیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.