چینی ذخیرہ اندوزی میں بلاول کا دوست ملوث نکلا

0

اسلام آباد: سندھ میں اربوں روپے کی چینی کی ذخیرہ اندوزی میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا دوست ملوث نکلا ہے، جس دھوبی کا نام استعمال کیا گیا تھا، اس نے پوری کہانی ایف بی آر کو بتادی، دوسری طرف لاہور میں کروڑوں روپے کی چینی کا ذخیرہ پکڑا گیا ہے۔

گودام کے مالک کے اپوزیشن جماعت سے تعلق کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں، سرکاری اداروں کو اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ایک بڑی اپوزیشن جماعت نے اپنے حامی کاروباری اداروں کو اشیاء بازار سے غائب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تفصیلات کے مطابق پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے قریبی دوست اور گھوٹکی سے پارٹی کے رکن قومی اسمبلی   اربوں روپے کی چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث نکلے ہیں، ذخیرہ اندوزی کو ریکارڈ میں خریداری ظاہر کرنے کے لئے     مل میں ملازمت کرنے والے دھوبی کے نام سے اکاؤنٹ  کھولا گیا، جس میں 12 ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز کی جاتی رہیں، غریب دھوبی رمیش کمار کو ایف بی آر کا نوٹس ملنے پر علم ہوا اور اس  کے طوطے اڑ گئے، تاہم اس  نے ایف بی آر پہنچ کر اپنا جواب اور حلف نامہ جمع کروا دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رمیش کمار غلام محمد مہر شوگرمل گھوٹکی میں ملازمت کرتا رہا ہے اور یہ مل پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی اور بلاول زرداری کے قریبی دوست محمد بخش مہر کی ملکیت ہے، ملازمت کے دوران مل انتظامیہ نے اس کے شناختی کارڈ کی کاپی لے کر اس کے نام سے جعلی اکاؤنٹ چلایا، ذرائع کے مطابق رمیش کمار کے بارے میں یہ علم ہونے پر کہ وہ غریب دھوبی ہے، اور اس کا اربوں روپے لین دین والے اکاؤنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایف بی آر حکام نے یہ معاملہ شوگر کمیشن کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بلاول کے دوست غلام محمد مہر کی شوگر مل گھوٹکی کو بھی چینی کی ذخیرہ اندوزی اور گھپلوں میں شامل تفتیش کیا جاسکے۔

رمیش کمار کا بیان

رمیش کمار نے ایف بی آر کو بیان میں کہا ہے کہ  اس کا اکاؤنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی اسے اس کا علم تھا، رمیش کمار نے ایف بی آر کو غلام محمد مہر شوگر مل گھوٹکی میں ملازمت سے متعلق دستاویزات بھی پیش کی ہیں، رمیش کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسے 2009 میں سردار غلام محمد شوگر مل میں سینیٹری ورکر بھرتی کیا گیا تھا، لیکن دو برسوں بعد اس نے مل  کی نوکری چھوڑ دی تھی۔

دوسری طرف اس کے نام سے کھولنے گئے  بینک اکاؤنٹ میں 2015 اور 2019 کے درمیان 12 ارب 78 کروڑ 71 لاکھ 45 ہزار روپے کی چینی خریداری ظاہر کی گئی، جو دراصل ذخیرہ اندوزی کے لئے استعمال کی گئی، اور مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جس سے اربوں روپے بٹورے گئے۔

لاہور میں چھاپہ

لاہور میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف چھاپے کے دوران ایک گودام سے چینی کی 800 بوریاں برآمد کرلی گئیں، انتظامیہ نے  گودام بھی سیل کردیا ہے، جبکہ برآمد کی گئی چینی کو سہولت بازار میں 85 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا جائے گا، حکام کے مطابق گودام مالک کے خلاف تحقیقات میں اس کی سیاسی وابستگی کا پہلو بھی دیکھا جارہا ہے، کیوں کہ اس طرح کی رپورٹس موجود ہیں کہ ایک بڑی اپوزیشن جماعت نے حکومت کے خلاف ماحول بنانے کے لئے اپنے حامی کاروباری طبقے کو    اشیائے ضروریہ کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کی ہدایت کی تھی، تاکہ عوام کو سڑکوں پر نکالا جاسکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.