مہاجر کیمپوں میں تارکین نے احتجاج شروع کردیا

0

میڈرڈ: اسپین پہنچنے والے تارکین وطن پناہ ملنے کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہونے لگے، جس کے بعد انہوں نے کیمپوں میں بھوک ہڑتال اور دیگر طریقوں سے احتجاج  شروع کردیا ہے، جس میں ان کی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہونے لگے ہیں، جبکہ افریقی تارکین کو ڈیپورٹ کرنے کا عمل بھی تیز کیا جارہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں تارکین وطن کشتیوں کے ذریعہ اسپین کے کینری جزائر  پہنچے ہیں، جہاں انہیں عارضی کیمپوں میں رکھا جارہا ہے، تاہم جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ان تارکین میں مستقبل کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جارہی ہے، یہ تارکین یورپ میں ایک نئی زندگی کے خواب لے کر آئے تھے، اور اس کے لئے انہوں نے جانیں  بھی خطرے میں ڈال دیں، تاہم اب وہ اسپین کی طرف سے ڈیپورٹ کرنے کے خدشے سے دوچار ہیں، اس صورتحال میں انہوں نے احتجاج شروع کردیا ہے، اور ان کا مطالبہ ہے کہ کینری جزائر سے انہیں اسپین کے مرکزی علاقے میں منتقل کیا جائے۔ اسپین کے اخبار El Pais کے مطابق حالیہ دنوں میں تارکین وطن کی طرف سے بھوک ہڑتال کے واقعات سامنے آئے ہیں، صرف ایک اسکول میں مقیم 450 مہاجرین نے گزشتہ ہفتے بھوک ہڑتال کی ہے۔

احتجاج کا طریقہ

تاہم معاملہ بھوک ہڑتال تک محدود نہیں، بلکہ کئی تارکین اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، کچھ نے تو خود کو مانے کی کوشش بھی کی ہے، رپورٹ کے مطابق ایک مہاجر نے خود کو مارنے کے لئے عمارت کی چھت سے چھلانگ لگائی ہے، جبکہ مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک   تارک وطن نے اپنا جسم بری طرح زخمی کرلیا۔

اکثر تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ کینری جزائر میں عملی طور پر خود کو قید محسوس کرتے ہیں، یہ جیل کی طرح ہے، انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی، دوسری طرف ہسپانوی حکام کا کہنا ہے کہ کرونا کی صورتحال اور دیگر مسائل کے سبب ان کے لئے ان تارکین کو مرکزی علاقے میں منتقل کرنے کا فیصلہ آسان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ان تارکین کے لئے کینری جزائر میں ہی ہوٹل اور فوجی بیرکس خالی کرائی گئی ہیں، اس کے ساتھ افریقی تارکین کو ڈیپورٹ کرنے کا عمل بھی تیز کیا جارہا ہے، اور اگلے ہفتے تارکین سے بھرا ایک طیارہ سینیگال بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، واضح رہے کہ گزشتہ برس 20 ہزار سے زائد تارکین وطن کینری جزائر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس سے اسپین کی حکومت بھی پریشان ہوگئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.