’’پی ساوی ہوش آوی‘‘، ساوی یعنی بھنگ سے پاکستان نے کیا پروڈکٹ بنالی؟

0

اسلام آباد: ’’پی ساوی ہوش آوی‘‘ تو آپ نے سنا ہی ہوگا، شہرت یافتہ پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ میں ہیر کے چچا قیدو کا یہ تکیہ کلام تھا، قیدو تو ساوی پی کر ہوش کھودیتا تھا، لیکن اب سائنس نے بہت کچھ بدل دیا ہے اور یہی ساوی یعنی بھنگ اب خراب پاکستانی معیشت کی بحالی کیلئے ایک امید بن رہی ہے۔

جی ہاں گزشتہ برس جب وزیراعظم عمران خان نے انسداد منشیات کے وزیر شہریار آفریدی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کی تجویز پر بھنگ کو سرکاری سطح پر کاشت کرنے اور جہلم میں اس کا پہلا فارم قائم کرنے کی منظوری دی تھی، تو میڈیا کے بڑے حصے اور سیاسی رہنماؤں نے اس کا مذا ق اڑایا تھا، لیکن اب ایک برس بعد بھنگ سے پاکستان نے ایک اہم پروڈکٹ بنانے کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے، جو آگے چل کر معیشت میں نئی روح پھونکنے کا باعث بن سکتا ہے۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں بھنگ کے ریشوں سے کپڑوں کی تیاری کی گئی ہے، اور بھنگ کے ریشوں سے ملا کر جینز کی پتلونیں تیار کی گئی ہیں، جو کپاس کے مقابلے میں زیادہ پائیدار بھی ہیں، یونیورسٹی نے یہ جینز کی پتلونیں لاہور میں جینز بنانے اور برآمد کرنے والی ایک بڑی کمپنی یو ایس گروپ کے  تعاون سے بنائی ہیں، فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے شعبہ فیبرک اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ بھنگ اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ عالمی منڈی میں بھنگ ملی جینز کی مانگ بہت زیادہ ہے، پاکستان اس کی فروخت سے اربوں ڈالر زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔

تاہم اس کے لیے ضروری تھا کہ ایسی جینز کی تیاری میں استعمال ہونے والا بھنگ کا دھاگہ مقامی طور پر بنایا جائے۔ اس سستے دھاگے کو استعمال کر کے پاکستان میں جینز بنانے والی ملز سستے طریقے سے پتلونیں تیار کر کے عالمی منڈی میں مہنگی فروخت کر سکتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں خصوصاً اس قسم کی جینز کی مانگ میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، کپاس سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں، جبکہ بھنگ ان سے ماورا ہے، بھنگ کو نہ تو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی کھاد اور کیڑا کش ادویات کی۔

ڈاکٹر اسد فاروق  نے بتایا کہ بھنگ نہ صرف یہ کہ ایک پائیدار پودا ہے، بلکہ اس کے اندر جراثیم کش خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں، سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ایک نیچرل فائبر یا قدرتی دھاگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال ہم نے بھنگ کے دھاگے کو 30 فیصد استعمال کیا ہے، اور باقی کپاس کا استعمال ہے، بھنگ کے دھاگے کو جینز کے اندر کے حصے کی طرف رکھا ہے تا کہ وہ مسلسل جلد کے ساتھ لگتا رہے اور بھنگ کی جراثیم کش خصوصیات کے ذریعے جلد پر موجود بیکٹیریا بھی  ختم ہوتے رہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.