بلیک میل ہونے والے جج کو سزا، بلیک میل کرنے والوں کا کیا ہوگا؟

0

لاہور: ہائیکورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی برطرفی کے فیصلے سے  بلیک میل ہونے والے جج کا معاملہ تو منطقی انجام تک پہنچ گیا، لیکن بلیک میل کرنے والے لندن میں مقیم نوازشریف، ان  کے صاحبزادے حسین نواز، لیگی  رہنما ناصر بٹ اور  مریم نواز کے بارے میں قانون کیا راستہ اختیار کرے گا۔

منصف کی سیٹ پر بیٹھے ایک شخص کو بلیک میل کرکے مرضی کا فیصلہ لینے کی کوشش کرنا دنیا بھر میں سنگین جرم  سمجھا جاتا ہے، اور مہذب ممالک میں اس جرم کی سزا کئی برس طویل قید ہوسکتی ہے، کیا پاکستان میں بھی قانون ان بااثر افراد کیخلاف اپنا راستہ بنائے گا، یہ سوال اب  بہت سے ذہنوں میں ہے۔

ان میں سے حسین نواز کا معاملہ تو مذہبی حوالے سے بھی سنگین ہے کہ وہ  نبی آخرالزماں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے قریب بیٹھ کر جج ارشد ملک سے انصاف  کا سودا کرنے کے معاملات طے کرتے رہے۔

اسی طرح مریم نواز اور پھر کیس کے دوران جج  کو جاتی عمرہ بلا کر ملاقات کرنے والے نوازشریف پر بھی کیس بننا چاہئے تھا، تاہم اب تک صرف ناصر بٹ اور اس کے چھوٹے سہولت کارروں کیخلاف ہی ایف آئی اے مقدمہ درج کرپائی ہے۔

اس سے پہلے 1998 میں بھی اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے جج عبدالقیوم ملک کو فون کرکے بینظیر کیخلاف فیصلہ ڈکٹیٹ کرایا تھا، یہ آڈیو لیک ہونے پر عبدالقیوم ملک کو تو مستعفی ہونا پڑگیا لیکن شہباز شریف کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

جج کی برطرفی

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کی 7 رکنی انتظامی کمیٹی نے ویڈیو اسکینڈل کیس کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو کے سابق جج محمد ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کیا۔

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے محمد ارشد ملک کو او ایس ڈی بنانے کے بعد معاملہ لاہور ہائی کورٹ کی انکوائری کمیٹی کے سپرد کیا تھا جس کے بعد انتظامی کمیٹی نے جسٹس سردار احمد نعیم کو تحقیقات سونپی تھی۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے جج محمد ارشد سے تحقیقات کرنے کے بعد انہیں قصوروار ٹھہراتے ہوئے رپورٹ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو پیش  کی تھی، جس پر جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اطلاعات کے مطابق انتظامی کمیٹی نے بھی محمد ارشد ملک کو ذاتی صفائی کا موقع دیا، جس کے بعد انہیں برطرفی کی سزا سنائی گئی۔

ارشد ملک نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 برس قید کی سزا سنائی تھی، جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کیا تھا، بعد میں جو شواہد سامنے آئے، ان سے یہ ثابت ہوگیا کہ ارشد ملک نے ن لیگ کو پہلے ہی یقین دہانی کرادی تھی کہ وہ نوازشریف کو بری کردیں گے، لیکن جب انہوں نے ایک ریفرنس میں سزا سنائی تو شریف فیملی ان سے ناراض ہوگئی۔

انہوں نے لیگی قیادت کو مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی کہ ایک ریفرنس میں کمزور فیصلہ دے کر سزا سنانے کا مقصد انہیں فائدہ پہنچانا تھا، اور یہ کہ کمزور فیصلے کی بنیاد پر ہائیکورٹ سے وہ بری ہوجائیں گے، تاہم مریم نواز گذشتہ برس 6 جولائی کو اپنے چچا شہباز شریف اور پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ کی گئی  پریس کانفرنس میں ارشد ملک کی اعترافی ویڈیو میڈیا کے سامنے لے آئیں۔

ن لیگ خوش

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ارشد ملک کی برطرفی پر خوشی کا اظہار کیا ہے، شہباز شریف کے مطابق ثابت ہوگیا کہ جج نے انصاف پہ مبنی فیصلہ نہیں دیا تھا اور 3 بار کے منتخب وزیراعظم کو ناحق سزا دی تھی، لہٰذا سچائی سامنے آنے پر انصاف کا تقاضا ہے کہ نوازشریف کے خلاف سزا کو ختم کیا جائے۔

حکومتی مطالبہ

وزیراطلاعات شبلی فراز اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری سمیت حکومتی رہنماؤں نے بھی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت ہے کہ  ایک جج کو بلیک کرنے والوں کیخلاف بھی قانون کارروائی کرے، انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ لوگوں کو خریدنے اور بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.