لیبیا پر اٹلی اور ترکی نے ہاتھ ملالئے، فرانس کیلئے پریشانی

0

انقرہ: ترکی اور اٹلی نے لیبیا کے معاملے پر ہاتھ ملالئے، جو یورپ کے ایک طاقتور ملک فرانس کیلئے پریشانی کا سبب ہوسکتا ہے، جو لیبیا اور بحیرہ روم میں ترکی کے کردار کا مخالف ہے، فرانسیسی صدر بحیرہ روم میں ترکی کے کردار کو یورپ کیلئے خطرے سے بھی تعبیر کرچکے ہیں، فرانس لیبیا میں باغی جنرل حقتر کا حمایتی ہے، جسے روس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دوسری جانب ترکی لیبیا کی قانونی اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، اٹلی بھی لیبیا کی قانونی حکومت کے ساتھ ہے، اٹلی کے لیبیا میں بہت گہرے معاشی مفادات ہیں، اور اٹلی کی تیل کمپنی ای این آئی لیبیا سے تیل نکالنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔

اٹلی نے لیبیا کی قانونی حکومت کی سپورٹ کیلئے ان کی فوج  کو تربیت دینے کیلئے اہلکار بھی تعینات کئے تھے۔

اطالوی و ترک وزرائے خارجہ کی ملاقات

گزشتہ روز اٹلی کے وزیردفاع لورینزو گورینی وفد کے ہمراہ انقرہ پہنچے، جہاں انہوں نے ترک ہم منصب جنرل ہلوسی اکار سے  مذاکرات کئے، ان مذاکرات میں دونوں ملکوں نے مشرقی بحیرہ روم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا، جبکہ لیبیا کے مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا۔

ترک وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے دفاع کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے، لیبیا کے مسائل پر ان کے خیالات میں بہت ہم آہنگی پائی گئی ہے۔

اطالوی وزیردفاع نے بھی ملاقات کو دوستانہ اور تعمیری قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ اٹلی اور ترکی کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں، لیبیا کے بارے میں ہمارے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہمیں اس کا سیاسی اور پرامن حل نکالنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرقی بحیرہ روم سے متعلق ایک دوسرے کے ویژن اور ذمہ داریوں پر بھی بات کی ہے، بحیرہ روم کو پرسکون اور مستحکم رکھنے کیلئے ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف ترکی لیبیا سےمعاہدے کے بعد وہاں اپنی افواج اور  شامی جنگجو اتار چکا ہے، جو لیبیا کی فوج کے ساتھ مل کر باغی جنرل حقتر کے  حامیوں کیخلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

ترکی فرانس اختلافات

یوں تو لیبیا کے معاملے پر ترکی اور فرانس کے اختلافات کافی عرصے سے چل رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ان میں اس وقت شدت آگئی جب فرانسیسی صدر نے بحیرہ روم میں نیٹو مشن پر تعینات اپنے جہاز بھی یہ کہہ کر واپس بلالئے تھے کہ ترک بحریہ کے جہاز ان کے ساتھ اشتعال انگیزی کررہے ہیں، اور ان کے فوجیوں کی جانوں  کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، تاہم ترکی نے اس  طرح کے اقدام  کی تردید کی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.